Pakistan’s Latest , Breaking News in Urdu
1
عام انتخابات کی تیاریاں
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے 8 فروری 2025 کو ہونے والے آئندہ عام انتخابات کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ سیکیورٹی کے انتظامات جاری ہیں، راولپنڈی اور گردونواح میں 12,500 سے زائد قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ اس میں پولنگ کی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ہر ضلع میں کنٹرول روم بنانا شامل ہے۔ مزید برآں، ووٹرز کی شرکت کی حوصلہ افزائی کے لیے، ای سی پی نے اعلان کیا ہے کہ قومی شناختی کارڈز (این آئی سی) کی میعاد ختم ہونے والے شہری اب بھی ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔ اس اقدام کا مقصد لاکھوں ووٹروں کے لیے رسد کی رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔
2
مسلم لیگ ن کی سیاسی رفتار
مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز شریف انتخابات سے قبل اپنی پارٹی کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ریلیوں کی بھرپور قیادت کر رہی ہیں۔ قصور میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے والد نواز شریف پاکستان کی سیاست کا سنگ بنیاد ہیں۔ مریم نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حالیہ سروے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) دیگر جماعتوں سے نمایاں طور پر آگے ہے، اپنے سابقہ ترقیاتی منصوبوں اور نواز کی قیادت کی میراث کو عوام سے اپیل کرنے کے لیے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ پارٹی نے نواز کی خود ساختہ جلاوطنی سے واپسی کے بعد اپنی مہم اعتماد کی تعمیر نو پر مرکوز کر دی ہے، جسے بہت سے لوگ سیاسی بحالی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
3
بلوچستان کا سیاسی بحران
بلوچستان کو شدید سیاسی اور سیکورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس خطے میں اغوا کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، جس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا ہے اور کوئٹہ میں مکمل شٹر ڈاؤن ہے۔ یونٹی چوک اور بلوچستان اسمبلی کے اندر دھرنوں سمیت احتجاج میں شدت آگئی ہے۔ حزب اختلاف کے ارکان نے حکومت کی طرف سے امن و امان کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جو عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں سے بڑھے ہیں۔ ان واقعات نے بہتر گورننس اور سیکورٹی اصلاحات کے مطالبات کو بڑھا دیا ہے
4
ممتاز شخصیات کے لیے قانونی چیلنجز
اہم سیاسی شخصیات کی جاری قانونی جانچ پڑتال نے قبل از انتخابات کے ماحول میں تناؤ بڑھا دیا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی حفاظتی ضمانت میں 23 دسمبر تک توسیع کر دی ہے۔ عدالت نے بااثر افراد کو روکنے میں عدلیہ کے فعال کردار پر زور دیتے ہوئے مستقبل کی سماعتوں میں ان کی تعمیل کی ضرورت پر زور دیا۔ جوابدہ اعداد و شمار یہ پیشرفت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو درپیش وسیع تر قانونی اور سیاسی جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے، جو پہلے ہی اندرونی تقسیم اور بیرونی دباؤ سے دوچار ہے
5
اے این پی کی جانب سے پارٹی ممبران کو نکالنا
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے جاری سیاسی مہم کے دوران غیر مجاز امیدواروں کی حمایت کرنے والے اراکین کو ملک سے نکال کر ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا ہے۔ پارٹی کے صوبائی الیکشن کمیشن نے ضلعی عہدیداروں کے ساتھ مل کر ان فیصلوں کی توثیق کی۔ یہ تادیبی کارروائی ANP کی اندرونی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور بڑھتے ہوئے مسابقتی سیاسی منظر نامے کے درمیان پارٹی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی کوششوں کو نمایاں کرتی ہے۔ اس طرح کی حرکتیں چھوٹی سیاسی جماعتوں کو وفاداری برقرار رکھنے اور بدلتے اتحادوں کو نیویگیٹ کرنے میں درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔
6
عمران خان کی راولپنڈی میں قانونی مشکلات اور گرفتاری
سابق وزیراعظم عمران خان کو بدستور اہم قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ حال ہی میں اسے راولپنڈی کے نیو ٹاؤن تھانے میں درج الزامات سے منسلک ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان الزامات میں اشتعال انگیزی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات شامل ہیں، جو اس کی سیاسی اور قانونی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اسے سیاسی ظلم و ستم قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ عام انتخابات سے قبل اپوزیشن کی آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ اس گرفتاری نے خان کی پہلے سے ہی ہنگامہ خیز سیاسی رفتار میں اضافہ کیا، جس میں بدعنوانی کے مقدمات میں پیشگی قید اور جاری ٹرائل شامل ہیں۔
7
بلاول بھٹو زرداری کا شہباز شریف سے جھگڑا
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مخلوط حکومت پر شدید عدم اطمینان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بلاول نے اہم پالیسی فیصلوں اور معاشی انتظام پر ناکافی مشاورت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ اتحاد کے اندر بڑھتے ہوئے تصادم کا اشارہ دے سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ پی پی پی مسلم لیگ (ن) کے غالب کردار کی وجہ سے نظر انداز ہو رہی ہے۔ یہ تناؤ ایک ایسے نازک وقت پر ہے جب اتحاد کو پی ٹی آئی کے احتجاج اور تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے متحدہ محاذ پیش کرنا ہوگا۔
8
پی ٹی آئی کا 24 نومبر کو منصوبہ بند احتجاج
پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو اسلام آباد میں ایک بڑے مظاہرے کا اعلان کیا ہے۔ اس احتجاج کا مقصد موجودہ حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا اور اصلاحات پر زور دینا ہے۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ احتجاج انتخابی دھاندلی اور ان کے سیاسی حقوق کو دبانے کا براہ راست ردعمل ہے۔ اسلام آباد انتظامیہ نے تصادم اور شہری بدامنی کے خدشے کے پیش نظر، پنجاب اور سندھ سے کمک کی درخواست کرتے ہوئے سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔ پی ٹی آئی کے اہم مطالبات میں انتخابی اصلاحات، قبل از وقت انتخابات اور عمران خان سمیت ان کے زیر حراست رہنماؤں کے ساتھ منصفانہ سلوک شامل ہیں۔
9
انتخابی دھاندلی کے الزامات اور سیاسی نتیجہ
پاکستان میں حالیہ عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر پی ٹی آئی کی جانب سے۔ عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی پارٹی کے امیدواروں کو انتخابی عہدیداروں کی طرف سے جوڑ توڑ کے ذریعے جان بوجھ کر ان کی جائز کامیابیوں سے محروم رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ECP) نے ان دعوؤں کی تردید کی ہے، لیکن اس تنازعہ نے بین الاقوامی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اقوام متحدہ جیسے اداروں اور برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک نے شفاف تحقیقات پر زور دیا ہے۔ ان الزامات نے احتجاج کو جنم دیا ہے اور سیاسی پولرائزیشن میں اضافہ کیا ہے، جس سے حکومت کے استحکام پر شک پیدا ہوا ہے۔
10
اتحادی حکومت میں اندرونی کشیدگی
شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت دباؤ کا شکار ہے، پیپلز پارٹی اقتدار کی تقسیم اور حکمرانی کے فیصلوں پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ پی پی پی رہنماؤں نے فیصلہ سازی میں ان کے محدود کردار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ اگر مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو وہ اتحاد کے لیے اپنی حمایت پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ اس تناؤ سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا خطرہ ہے، جو پہلے ہی معاشی چیلنجوں، عوامی عدم اطمینان اور پی ٹی آئی کی زیر قیادت ایک طاقتور اپوزیشن سے دوچار ہے۔